فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'جام' کے ساتھ کسرہ اضافت لگانے کے بعد فارسی ترکیب 'جہاں نما' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٧٣ء میں "دیوان فغاں" انتخاب میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - ایران کے بادشاہ جمشید کا پیالہ جس پر ہندسی خطوط اور شکلیں بنی ہوئی تھیں (کہتے ہیں کہ ان خطوط سے آیندہ کا حال بتایا جا سکتا تھا اور اس میں احوال عالم کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا)، جام جہاں نما؛ ساغر جم۔
"آخر کیخسرو نے جام جہاں نما میں دیکھا اور معلوم ہوا کہ زندہ تو ہے مگر توران میں اسیر ستم ہے۔"
( ١٩٢٩ء، شرر، مضامین، ٣٠٣:٣ )
٢ - [ مجازا ] وہ مینار جس کی روشنی سے جہازوں کو سمندر کا راستہ معلوم ہوتا ہے۔ (فرہنگ آصفیہ)