جان باز

( جان باز )
{ جان + باز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'جان' کے ساتھ فارسی مصدر 'باختن' سے مشتق صیغہ امر 'باز' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٦٥ء میں "پھول بن" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : جان بازوں [جان + با + زوں (و مجہول)]
١ - [ لفظا ]  جان فدا کرنے والا، جان نثار، عاشق۔
 لو لگائے تجھ سے ساری رات پروانے رہے لب پہ جانبازوں کے سوز غم کے افسانے رہے      ( ١٩٢٩ء، مطلع انوار، ٤١ )
٢ - جان پر کھیل جانے والا، بہادر، بڑا محنتی، باہمت، اولوالعزم، کسی خطرے کی پرواہ نہ کرنے والا۔
"اس نے ایک جاں باز سپاہی کی حیثیت سے فوجی خدمات بھی سرانجام دیں۔"      ( ١٩٢٦ء، شرر، مضامین، ٧١:٣ )