جہازی

( جَہازی )
{ جَہا + زی }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'جہاز' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ صفت ملانے سے 'جہازی' بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ملتا ہے ١٧٥٦ء میں "قصہ کام روپ و کلا کام" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - جہاز چلانے والا، جہاز کا کپتان۔
 لب دریا قصا را اس نے آکر یہ فرمایا جہازی کو بلا کر      ( ١٨٦١ء، الف لیلہ منظوم، ٥٣٥:٢ )
٢ - جہاز میں بیٹھنے والے، جہاز کے سوار (فرہنگ آصفیہ، جامع اللغات)
٣ - جہاز کے ملازم، خلاصی، ملاح۔
"میں نے جہازیوں سے اس کو اس جگہ پر اٹھا لانے کو کہا۔"      ( ١٨٤٧ء، عجائبات فرنگ، ١١٣ )
٤ - جہاز سے منسوب یا متعلق، بحری، سمندری، جیسے جہازی ملازم، جہازی پوس، جہازی تجارت وغیرہ۔
"بہتر یہ ہے کہ جہوازی اصول پر محمل کیا جائے۔"      ( ١٩٥٧ء، سائنس سب کے لیے، ٣٩٤:١ )
٥ - لمبا، چوڑا، وسیع۔
"جہازی چارپائی پر نہایت صاف ستھرا بچھونا بچھا ہوا ہے۔"      ( ١٩٥٦ء، مضامین محفوظ علی، )
٦ - چھالیہ کی ایک قسم جو عام چھالیہ سے بڑی اور عمدہ ہوتی ہے۔
"چھالیہ مانگ چندی لوگی یا جہازی۔"      ( ١٨٦٨ء، مرآۃ العروس، ٤٩ )
٧ - [ طب ]  چین کے ملک کی چوب چینی کو جہاز بولتے ہیں۔ (خزائن الادویہ 387:4)
  • مُسافِر جِہاز
  • مانْجھی
  • کھیوَن ہار
  • Naval
  • nautical;  a sailor