جہاں گیر

( جَہاں گِیر )
{ جَہاں + گِیر }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'جہاں' کے ساتھ فارسی مصدر 'گرفتن' سے مشتق صیغہ امر 'گیر' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٠٩ء میں "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : جَہاں گِیروں [جَہاں + گی + روں (و مجہول)]
١ - دنیا کو فتح کرنے والا، دنیا پر چھایا ہوا، عالم گیر۔
 دل کے ارمان نکلنے کی یہی شکل ہے ایک کہ جہانگیر و جہاں بخش و جہانیاں نکلو      ( ١٩٣٨ء، چمنستان، ٢٠٨ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - شہنشاہ اکبر کے بیٹے شہزادہ سلیم کا لقب جو بعد کو ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کا چوتھا بادشاہ بنا۔
"جہانگیر نے شاہزادگی کے زمانہ میں عرفی کا شہرہ سن کر دربار میں بلایا۔"      ( ١٩١٠ء، شعر العجم، ١٠٩:٣ )
٢ - بادشاہ، سلطان۔
 کئے بخش ساریاں کو یک دھیرتے ہوئے شاد سب اس جہانگیر تے      ( ١٦٢٥ء، سیف الملوک و بدیع الجمال، ١٦٩ )
  • قاتِح گِیر
  • قاتِح عالَم
  • World- taking
  • world subduing;  a great conqueror
  • a sovereign;  name of the son and succersor of the Emperor Akbar