سادگی

( سادَگی )
{ سا + دَگی }
( فارسی )

تفصیلات


سادَہ  سادَگی

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سادہ' کی 'ہ' حذف کر کے 'گی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٧٣٩ء سے "کلیات سراج" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - ظاہری زیبائش کا فقدان، بے رنگی، ٹیپ ٹاپ کی کمی۔
 اے حسن سادگی میں بھی ہے تیری بانکپن یہ صبح اور یہ شام ہماری نظر میں ہے      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ١٠٦ )
٢ - بھولا پن، بے ہنری، سیدھا پا، سیدھا پن، سادہ لوحی۔
"یہ ان کی بے علمی کا ثمرہ اور سادگی کا نتیجہ ہے۔"      ( ١٩١١ء، قصہ مہر افوز، ٣٥ )
٣ - تصنع اور تکلف سے پاکی، خلوص، راستی، راست بازی، صاف دلی۔
 میری سادہ روی میرے نہ کچھ کام آ سکی لیکن تمھاری شوخیاں پر چھا چکی ہے سادگی میری      ( ١٩٨٣ء، حصارِ انا، ١٩٩ )
٤ - [ ادب ]  آسان زبان و بیان۔
"حالی شعر میں سادگی پر زور دیتے تھے۔"      ( ١٩٨٥ء، کشاف تنقیدی اصطلاحات، ٩٦ )
  • Plainners
  • absence of ornament;  artlessness
  • simplicity
  • openness
  • frankness
  • sincerity
  • purity