سادہ گو

( سادَہ گو )
{ سا + دَہ + گو (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سادہ' کے بعد مصدر 'گفتن' سے صیغہ امر 'گو' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٩٨٨ء سے "نگار، کراچی، اپریل" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع   : سادَہ گویان [سا + دَہ + گو + یان]
١ - سادہ بات کہنے والا، آسان کہنے والا، شعر میں عام فہم پیرایہ بیاں اور آسان زبان استعمال کرنے والا۔
"آتش نے ناسخ کے انداز کی پیروی کی۔ مصحفی نے بھی سادہ گو ہونے کے باوجود اس کے بعد مشاعروں میں شرمندگی نہیں اٹھائی۔"      ( ١٩٨٨ء، نگار، کراچی، اپریل، ١٢ )