باڑ[2]

( باڑ[2] )
{ باڑ }
( سنسکرت )

تفصیلات


ورش  باڑ

سنسکرت میں اصل لفظ 'ورش' ہے اس سے ماخوذ اردو زبان میں 'باڑ' مستعمل ہے۔ ١٧٩٤ء میں "جنگ نامہ دو جوڑا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : باڑیں [با + ڑیں (یائے مجہول)]
جمع غیر ندائی   : باڑوں [با + ڑوں (واؤ مجہول)]
١ - بندوقوں یا توپوں کا ایک ساتھ فیر۔
"توپوں کی باڑ نے سینکڑوں کو خاک و خوں میں ملا دیا۔"      ( ١٩٤٧ء، فرحت، مضامین، ١١٤:٣ )
٢ - بوجھار، یلغار، لگاتار پڑنے یا ہونے کی صورت حال۔
"اولوں کی باڑ نے محبت کی دیوی کو زخمی کر دیا۔"      ( ١٩٤٤ء، گوہر مقصود، ٢٢ )
١ - باڑ جھاڑنا
کئی ایک بندوقوں کو ایک ساتھ چھوڑنا، توپوں کو قطار باندھ کر داغنا۔"ان توپوں کی برابر سیاہ برج پر باڑھ جھاڑنی شروع کر دی"      ( ١٩١١ء، ظہیرالدین، داستان غدر، ١٤٨۔ )
٢ - باڑ چلانا
 لے لے کے کمانیں صف اول ادھر آئی تیروں کی خطا کاروں نے اک باڑ چلائی      ( ١٨٩٨ء، مرثیہ، برجیس،٩۔ )
٣ - باڑ کھانا
گولیوں کی بوچھار سے زخمی ہونا۔ مژگاں تری وہ کافر بندوقچی ہیں پلٹن آہن جگر بھی ٹہریں اس کی نہ باڑ کھا کے      ( ١٨٥٦ء، کلیات ظفر، ٢٣٢:٤ )
٤ - باڑ پڑنا
گولیوں کی بوچھار ہونا۔ پڑے ہیں چھید فلک میں نہیں یہ اختر پڑی ہے باڑ کوئی دل جلوں کے نالوں کی      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٦٩۔ )
  • fence
  • hedge
  • outer boundary or enclosure (of any kind);  line
  • border
  • rim
  • margin
  • edge;  edge (of a weapon or tool) line or row (of soldiers);  front
  • front rank