کشئ نوح

( کَشْئ نُوح )
{ کَش + تی + اے + نُوح }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'کشتی' کو ہمزۂ اضافت کے ذریعے عربی زبان سے ماخوذ اسم معرفہ 'نُوح' کے ساتھ ملانے سے مرکب اضافی بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے ١٨٤٥ء کو "احوال الانبیاء" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم معرفہ ( مؤنث - واحد )
١ - حضرت نُوح کی کشتی جس کی روایت یوں ہے کہ حضرت نوح کی بد دعا سے دنیا میں پانی کا طوفان آیا تھا۔ خدائے تعالٰی نے حضرت نوح کو ہدایت کی تھی کہ ایک کشتی بنائیں اور جب طوفان آئے تو اپنے بیوی بچوں اور ایماندار لوگوں سمیت اس کشتی میں بیٹھ جاءیں جب طوفان آیا تو ساری دنیا غرقاب ہو گئی لیکن نوح کی کشتی کو کوءی ضرر نہ پہنچا۔"
"موجودہ زمانے میں وقتاً فوقتاً یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتئ نوح کی تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔"      ( ١٩٧٢ء، سیرتِ سرور عالم، ٤٩٨ )
٢ - [ کنایۃ ]  جائے پناہ، وہ چیز جس پر تکیہ کیا جا سکے۔
"اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفان بے تمیزی کے زمانے میں گھر کی چار دیواری کو کشتئ نوح سمجھتا ہے۔"      ( ١٩١٤ء، اقبال نامہ، ٢٥٥:١ )