اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - کھلنا، ظاہر ہونا، وا ہونا، بکھرنا؛ (مجازاً) کسی مشکل یا مسئلے کا حل۔
ہم پر کشود زُلفِ بُتاں سے کھلے وہ راز کھلتے نہ تھے جو گوشہ نشینانِ راز پر
( ١٩٦٨ء، غزال و غزل، ٢٧ )
٢ - فراخی، پھیلاؤ، کشادگی۔
میلادِ مرتضٰی سے دلوں کی کشود ہے خوشبو کے ساتھ غنچوں کے منہ میں دُرود ہے
( ١٨٨٩ء، میلادِ معصومین، ٢١٥ )
٣ - مطلب حل ہونا، مقصد براری، مراد پوری ہونا، کامیابی، فائدہ۔
"کولہو کے بیل کی طرح جُتا رہتا ہوں مگر سب بے سُود، انجام مراد و کشود کار بہر نوع مفقود ہے۔"
( ١٩٠١ء، الف لیلہ، سرشار، ٤٤ )
٤ - مسرت، خوشی۔
مطرب ایسا کچھ سنا جس سے کہ ہو دل کو کشود ایک سن کر ہی ترا کھٹ راگ آئے ہم تو ہیں
( ١٨٤٩ء، کلیات ظفر، ٨٢:٢ )
٥ - [ تصوف ] کشف، مکاشفہ۔
"وجود و شہود کی بحث محض کشود کے ذریعہ سمجھی جا سکتی ہے۔"
( ١٩١٦ء، سوانح خواجہ معین الدین چشتی، ٤٦ )