کم فہمی

( کَم فَہْمی )
{ کَم + فَہ (فتحہ ف مجہول) + می }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ صفت 'کم' کے بعد عربی سے ماخوذ اسم 'فہم' بطور لاحقۂ فاعلی لگا کر اس کے بعد 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا جو اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٩٩٠ء کو"نگار" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : کَم فَہْمِیاں [کَم + فَہ (فتحہ ف مجہول) + مِیاں]
جمع غیر ندائی   : کَم فِہْمِیوں [کَم +فَہ (فتحہ ف مجہول) + مِیوں (و مجہول)]
١ - ناسمجھی، بیوقوفی۔
"معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس قدر کم فہمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔"      ( ١٩٩٠ء، نگار، کراچی، جولائی، ١٦ )