ترکش بند

( تَرْکَش بَنْد )
{ تَر + کَش + بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'ترکش' کے ساتھ فارسی مصدر 'بستن' سے مشتق صیغہ امر 'بند' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت مستعمل ہے۔ ١٦٣٥ء میں "سب رس" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - تیر انداز، تیروں سے لڑنے میں ماہر۔
"اس نوح کے ترکش بندوں اور سپاہیوں کی استمالت کے فرمان لکھ کر بھیجے۔"      ( ١٨٩٧،تاریخ ہندوستان، ٩٣:٣ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ شخص جو ترکش باندھے ہوش ہو یا جو تیر و ترکش سے مسلح ہو۔
 سو اک غلام ہے خدمت میں اس کی ترکش بند کہ اس کے پاس سکھے رستم آ کے صیغہ جنگ      ( ١٧٠٧ء، کلیات ولی، ٣٦٥ )