عربی زبان سے ماخوذ اسم 'ترکیب' کے ساتھ فارسی مصدر 'بستن' سے مشتق صیغہ امر 'بند' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٨٦٣ء میں "مقالات حالی" میں مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : تَرْکِیب بَنْدوں [تَر + کِیب + بَن + دوں (و مجہول)]
١ - ایک بحر میں مختلف قافیوں والے چند بند لکھنا اور ہر بند کے بعد ایک ایسا شعر لانا جو وزن میں متفق اور قافیوں میں مختلف ہو جس کی تکرار نہ ہو ان بندوں پر مشتمل کلام ترکیب بند کہلاتا ہے۔
"مولانا کو ایک شاندار ڈنر دیا گیا جس میں مولانا نے ایک ترکیب بند پڑھا۔"
( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٢١٩ )