ترویح

( تَرْوِیح )
{ تَر + وِیح }
( عربی )

تفصیلات


روح  تَرْوِیح

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے اردو میں اصل معنی اور حالت میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٣٢ء میں "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - ہوا کی آمد و رفت، سانس کا آنا جانا، ہوا پہنچنا۔
"جب حاجت ترویح شدیہ ہوتی ہے قلبی قوت قوی ہو جاتی ہے۔"      ( ١٩٣١ء، رسالہ نبض، ٦٢ )
٢ - راحت پہنچانا۔
 جو حکم ہو پئے ترویح قلب اے واعظ روانہ میکدہ کو ہوں کہ ہے وہی مامن      ( ١٩٣٥ء، عزیز، صحیفہ ولا، ١٤٣ )
٣ - (روح کو) ایصال ثواب کے ذریعے آرام پہنچانا۔
"آپ حضرات کی تشریف آوری سے ہمارے خیال میں حضرات اکابر کی روح مقدسہ کی ترویح ہوتی ہے۔"      ( ١٩٠٧ء، تاریخ نثر اردو، ٦٠٦:١ )