محجوب

( مَحْجُوب )
{ مَح (فتحہ م مجہول) + جُوب }
( عربی )

تفصیلات


حجب  حِجاب  مَحْجُوب

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'صفت' ہے۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٦٨٤ء کو "عشق نامہ" میں مستعمل ہوا۔

صفت ذاتی
١ - جو حجاب میں ہو، مخفی، پنہاں، چھپا ہوا، پردے میں۔
 کتنی محجوب پائلوں کی چھنک کتنے گیتوں کی نغمگی تھی نہاں      ( ١٩٨١ء، تشنگی کا سفر، ١٢٤ )
٢ - [ مجازا ]  پردہ نشیں، برع پوش۔
"خمینی نے عورتوں کو پھر محجوب کر دیا۔"      ( ١٩٩٠ء، چاندنی بیگم، ٢١١ )
٣ - وہ جو کسی کی میراث پانے سے محروم ہو یا کم حصہ پائے۔
"مولانا نے مظفر کو جو محروم و محجوب تھا اپنی جائیداد میں شریک کر لیا۔"      ( ١٩٤٣ء، حیات شبلی، ٣٥٧ )
٤ - [ طبیعیات ]  حاجز کے ذریعے الگ کیا ہوا تاکہ بجلی اور حرارت گزر نہ سکے۔
"اونٹ کے جسم کے بال اس کو محجوب کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے پانی کا ضیاع نہیں ہوتا۔"      ( ١٩٧٠ء، گھریلو انسائیکلو پیڈیا، ٦٦٥ )
٥ - اپنے کیے پر شرمندہ، پشیمان، خجل، منفعل، نادم، جھینپا ہوا، جھجکا ہوا۔
"نماز کے بعد جعفری صاحب بڑھ کر ملے، کچھ محجوب بھی نظر آ رہے تھے۔"      ( ١٩٩٦ء، قومی زبان، کراچی، دسمبر، ١٨ )
٦ - [ عروض ]  جن بیتوں میں ردیف قافیے سے پہلے آئے تو گویا وہ ان کی پردہ دار ہو گئی، اس لیے انھیں محجوب کہتے ہیں۔
"جن بیتوں میں ردیف حاجب ہوتی ہے انھیں محجوب کہتے ہیں۔"      ( ١٩٣٩ء، میزان سخن، ١٤١ )
٧ - نابینا، وہ جو پیدائشی اندھا ہو؛ وہ جسے داخل ہونے کی ممانعت ہو۔ (ماخوذ : جامع اللغات؛ مخزن الجواہر)
٨ - [ تصوف ]  وہ شخص جو خدا سے بالکل غافل ہو، یاد الٰہی سے غفلت برتنے والا۔ (ماخوذ : مصباح التعرف)