محبس

( مَحْبَس )
{ مَح (فتحہ م مجہول) + بَس }
( عربی )

تفصیلات


حبس  حَبَس  مَحْبَس

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'اسم' ہے۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٣٨ء کو "گلزار نسیم" میں مستعمل ہوا۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - قید خانہ، زنداں، جیل خانہ۔
"محبس کے دیوار و در کے باوجود اس کو امید کی کرن دکھائی دے رہی تھی۔"      ( ١٩٨٦ء، فیضان فیض، ٥٧ )
٢ - باڑا، مویشی گھر۔ (پلیٹس)
٣ - احاطہ، گھیری ہوئی جگہ، بند جگہ۔
 جل اٹھی شمع، دل کے محبس میں صبح گویا ہوئی بنارس میں      ( ١٩٣٣ء، سیف و سبو، ٢٠١ )
٤ - کارخانہ
"یہاں کا محبس صنعت و حرفت خصوصاً تیاری خیمہ جات نفیسہ کے سب سے تمام ممالک محروسہ دکن میں مشہور ہے۔"      ( ١٩٠١ء، ارمغانی سلطان، ٢٧ )
٥ - [ مجازا ]  غلاف، خول۔
 میں اپنی ذات کے محبس میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہوں لہو پرچھائیں بن کر دوڑتا رہتا ہے سڑکوں پر      ( ١٩٩٠ء، ساون آیا ہے، ١٣٤ )