محاورہ

( مُحاوَرَہ )
{ مُحا + وَرَہ }
( عربی )

تفصیلات


حور  مُحاوَرَہ

عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق 'اسم' ہے اردو میں بطور 'اسم' مستعمل ہے۔ سب سے پہلے ١٨٤٥ء کو "احوال الانبیاء" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
جمع   : مُحاوَرات [مُحا + وَرات]
جمع غیر ندائی   : مُحاوَروں [مُحا + وَروں (و مجہول)]
١ - رواج، عادت، مشق، مہارت۔
"دوسری جنگ عظیم کے بعد جو دنیا سامنے آئے گی اس کا معاشرتی رخ اور محاورہ کچھ اور ہو گا۔"
٢ - [ قواعد ]  وہ کلمہ یا کلام جسے معتبر لوگوں نے لغوی معانی کی مناسبت یا غیر مناسبت سے کسی خاص معنی کے لیے مخصوص کر لیا ہو (حقیقی معنوں کی جگہ مجازی معنوں میں استعمال)۔
"محاورے سے مراد لفظوں کا ایسا مرکب ہے جو اصل معنی کے بجائے . بولا جائے۔"      ( ١٩٩٤ء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری : حیات و خدمات، ٤٢٦:٢ )
٣ - کسی خاص گروہ کی بول چال یا لفظوں کی ترکیب۔
"ہر لفظ یا محاورہ فوراً ہی لغت میں اندراج کا اہل نہیں ہو جاتا۔"      ( ١٩٩٥ء، قومی زبان، کراچی، جولائی، ٢١ )
٤ - ہمکلامی، باہمی گفتگو، بول چال، بات چیت، سوال و جواب۔
"پھر ان دونوں کے درمیان میں مناظرہ محاورہ و تکرار ہوئی۔"      ( ١٨٨٨ء،، تثنیف الاسماع، ١٣٧ )