عربی زبان سے مشتق اسم 'مال' کے بعد فارسی مصدر 'گزشتن' سے صیغہ امر'گزار' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٦٩ء کو "انشائے خرد افروز" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔
جمع غیر ندائی : مال گُزاروں [مال + گُزا + روں (و مجہول)]
١ - [ قانون ] وہ شخص جو زمین کا لگان ادا کرے، مالگزاری ادا کرنے والا۔
"احمد یار خاں تعلقہ دار باسٹھ ہزار کا مال گزار آدھا علاقہ لکھنے کو تیار۔"
( ١٩٣٦ء، گرداب حیات، ٩١ )
٢ - گانو کا وہ چودھری جو زمینداروں سے محاصل وصول کر کے داخل سرکار کرے۔
"دیہات کی مالگزاری وصول کرنے کا انتظام مرہٹوں نے ان افراد کے سپرد کر رکھا تھا جن کو عام طور پر مال گزار کہتے تھے۔"
( ١٩٤٠ء، معاشیات ہند (ترجمہ)، ٦٤٢:١ )