مد مقابل

( مَدِّ مُقابِل )
{ مَد + دے + مُقا + بِل }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'مدّ' کے آخر پر کسرہ اضافت لگا کر عربی زبان سے صفت 'مقابل' لگانے سے مرکب اضافی 'مدمقابل' بنا۔ اردو میں بطور اسم نیز متعلق فعل مستعمل ہے۔ ١٨٩٢ء کو "مہتاب داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - برابر کا خط؛ (محاسبی) جمع اور خرچ کی مد جو ایک دوسرے کے محاذی ہوتی ہے۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ؛ نوراللغات)
٢ - مخالف، حریف؛ (مجازاً) رقیب، دشمن۔
 ہزار مد مقابل ہو تیرگی شب کی طلوع ہو کے رہے گی حسیں سحر پھر بھی      ( ١٩٩٨ء، افکار (ناصر زیدی)، کراچی، جون، ٣٦ )
٣ - برابر کی جوڑ یا چوٹ، ہم پلہ، ہمسر۔
 سلام ان پر نہیں جن کا کوئی مدمقابل جو ہیں سدّ گرانِ درمیان حق و باطل      ( ١٩٩٣ء، زمزمۂ اسلام، ٩٢ )
٤ - دو سوداگروں کا باہمی کھانا۔ (ماخوذ : فرہنگ آصفیہ)
متعلق فعل
١ - روبرو؛ مقابلے میں۔
"کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کے مدمقابل آ کھڑے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو طعنے دیتے ہیں۔"      ( ١٩٨٤ء، اوکھے لوگ، ١٥٤ )