سربراہی

( سَربَراہْی )
{ سَر + بَرا + ہی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'سربراہ' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٨٠٢ء کو "خرد افروز" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - سربراہ سے متعلق یا منسوب۔
"مفتی محمود نے مسودہ رکھ لیا اور بتایا کہ وہ پی این اے کے سربراہی اجلاس میں اس پر غور کرکے کل ہمیں جواب دیں گے۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١٥٢ )
اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - انتظام، بندوبست، اہتمام۔
"آدمی ہر روز تیرے آب و دانے کی سربراہی کرتے ہیں۔"      ( ١٨٠٢ء، خرد افروز، ١١٠ )
٢ - انجام دہی، تکمیل۔
"کھانا، پینا، کپڑا، مکان، ایندھن، باربرداری سواری غرض ان کی اکثر ضرورتوں کی سربراہی اونٹ سے ہوتی تھی۔"      ( ١٩١٢ء، نذیر احمد، لکچروں کا مجموعہ، ٥٢:١ )
٣ - فراہمی
"بہت سے شہروں میں پانی کے کارخانے سے پانی کی سربراہی سب سے زیادہ ضروری ہے۔"      ( ١٩٤٨ء، رسالہ رڑکی چنائی، ١٧ )
٤ - رہنمائی، قیادت۔
"صوبائی وزراء اعلٰی کی سربراہی میں قائم ہونے والی حکومتیں پیراگراف میں درج تاریخ پر کام کرنا بند کر دیں گی۔"      ( ١٩٨٧ء، اور لائن کٹ گئی، ١٠٣ )
٥ - دیکھ بھال، سرپرستی، کفالت۔
"میرے نانا شیخ پٹھانا بڑے چلتے ہوئے آدمی تھے اس گھر کی سربراہی وہی کرتے تھے۔"      ( ١٩٣٥ء، اودھ پنچ، لکھنو، ٢٠، ٩:١٤ )