فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ 'بستن' مصدر سے صیغہ امر 'بند' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔
١ - پٹی جو عورتیں سر پر باندھتی ہیں، سر پر لپیٹنے کا کپڑا، پگڑی۔
"سر پر دو سینگ ہیں جن کے درمیان ایک لمبا سر بند ہے۔"
( ١٩٥٩ء، وادئ سند کی تہذیب، ١٦٩ )
٢ - ڈاٹ، کاگ، ڈھکن وغیرہ جس سے کسی چیز کا منہ بند کیا جائے۔
"جب کسانوں کو تشنگی ہوئی تو وہ بخیال اس کے کہ اس میں پانی ہے اوس پر ٹوٹ پڑے اور اس کا سر بند توڑ کر ایک چھوٹا پیالہ ڈبو کر پانی لینا چاہا۔"
( ١٨٩٠ء، ماہنامہ حسن، اکتوبر، ١٤٧ )
٣ - پٹھا، بڑی رگ۔
"ایک رگ کا سر بند زانوں باز میں ہے اس پر سوزن چوبا کر قدرے خون نکالیں۔"
( ١٨٨٣ء، صید گاہ شوکتی، ١٤٧ )
٤ - [ بنائی ] ہر قسم کے کپڑے کی سرگاہوں کے بغیر بنے چھوڑے ہوئے تانے کے تار، جیسے تولیوں، چادروں، کمبلوں اور دریوں وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ (اصطلاحات، پیشہ وراں، 59:2)