سر بند

( سَر بَنْد )
{ سَر + بَنْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سر' کے ساتھ 'بستن' مصدر سے صیغہ امر 'بند' بطور لاحقہ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت اور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٥٦٤ء کو "دیوان حسن شوقی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - منہ بند کیا ہوا، منہ ڈھکا ہوا، بند۔
"شاہی محل کے چور دروازے سے باسفورس کے پانی میں ایک سر بند تھیلا جو خون آلود بھی تھا پھینکا گیا۔"      ( ١٩٣٤ء، تین پیسے کی چھوکری، ٢٢ )
٢ - جس کا راستہ مسدود ہو۔
"ایک بابوجی کو بھی محلے والوں نے پکڑا کہ سر بند گلی میں کیسے آئے۔"      ( ١٩٥٨ء، شمع خرابات، ٢١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - پٹی جو عورتیں سر پر باندھتی ہیں، سر پر لپیٹنے کا کپڑا، پگڑی۔
"سر پر دو سینگ ہیں جن کے درمیان ایک لمبا سر بند ہے۔"      ( ١٩٥٩ء، وادئ سند کی تہذیب، ١٦٩ )
٢ - ڈاٹ، کاگ، ڈھکن وغیرہ جس سے کسی چیز کا منہ بند کیا جائے۔
"جب کسانوں کو تشنگی ہوئی تو وہ بخیال اس کے کہ اس میں پانی ہے اوس پر ٹوٹ پڑے اور اس کا سر بند توڑ کر ایک چھوٹا پیالہ ڈبو کر پانی لینا چاہا۔"      ( ١٨٩٠ء، ماہنامہ حسن، اکتوبر، ١٤٧ )
٣ - پٹھا، بڑی رگ۔
"ایک رگ کا سر بند زانوں باز میں ہے اس پر سوزن چوبا کر قدرے خون نکالیں۔"      ( ١٨٨٣ء، صید گاہ شوکتی، ١٤٧ )
٤ - [ بنائی ]  ہر قسم کے کپڑے کی سرگاہوں کے بغیر بنے چھوڑے ہوئے تانے کے تار، جیسے تولیوں، چادروں، کمبلوں اور دریوں وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ (اصطلاحات، پیشہ وراں، 59:2)