سرخا

( سُرْخا )
{ سُر + خا }
( فارسی )

تفصیلات


سُرْخ  سُرْخا

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سرخ' کے ساتھ 'ا' بطور لاحقۂ صفت لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٩٥٧ء کو "گلشن عشق" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : سُرْخ [سُر + خ]
جمع   : سُرْخے [سُر + خے]
جمع غیر ندائی   : سُرْخوں [سُر + خوں (و مجہول)]
١ - وہ گھوڑا جس کی کھال سفید، مائل بہ سرخی یا زعفرانی ہو نیز اس گھوڑے کا رنگ۔
 سرخا ہے ایک رنگ محمودہ جس طرح زعفران ناسودہ      ( ١٨٤١ء، زینت الخیل، ١٢ )
٢ - سرخ پروں کا کبوتر یا مرغ۔
"فدوی نے ہزاروں ہی مرغ پال ڈالے اور کیا کیا نہیں پالے، انار . سرخ۔"      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٢٧ )
٣ - [ بٹیر بازی ]  ایسا بٹیر جس کے پوٹے کے پروں میں سرخ رنگ کی جھلک ہو، یہ لڑاؤ سمجھا جاتا ہے۔ (اصطلاحات پیشہ وراں، 120:8)
٤ - ایک قسم کا آم جس کا چھلکا سرخ ہوتا ہے۔ (نوراللغات)
٥ - [ مجازا ]  اشتراکیت پسند، اشتراکی، سوشلزم کا پیرو، کمیونسٹ، کیونکہ یہ خونی انقلاب کے قائل ہیں۔
"لباس کے معاملے لاپرواہی بالوں کی طوالت اور بے ترتیبی، پائپ نوشی . کی عادت کو دیکھ کر کالج کے اندر اور باہر بعض لوگ مجھے سرخا کہتے ہیں۔"      ( ١٩٨٠ء، دیوار کے پیچھے، ١٥ )