سرخر

( سُرْخْرُ )
{ سُرْخ + رُو }
( فارسی )

تفصیلات


سُرْخ  سُرْخْرُ

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'سرخ' کے ساتھ فارسی ہی سے ماخوذ اسم 'رو' لگانے سے بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - عزت و آبرو والا، بامراد، کامیاب۔
"بالآخر آندھرا پردیش کی حکومت یہ مقدمہ ہاری اور مظہر مرحوم سرخرو ہوئے۔"      ( ١٩٨٨ء، فاران کراچی، ستمبر، ٥٥ )
٢ - خوش و خرم۔
 محتسب سیاہ دل زرد رہے بہار میں رندوں سے سرخرو رہیں مغبچگان سبزہ رنگ      ( ١٨٥٤ء، غنچہ آرزو، ٧٨ )
٣ - محترم و معزز۔
"اللہ تعالٰی تم کو جملہ مکروہات روزگار سے محفوظ رکھ کر مراتب اعلٰی تک پہنچائے اور دین و دنیا میں سرخرو رکھے۔"      ( ١٨٩٨ء، مکتوبات حالی، ٤٦:٢ )
٤ - (وعدے یا ذمہ داری سے) عزت کے ساتھ فرض سے سبکدوش یا بری اندمہ۔
"خدا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے مجھے سرخرو کیا۔"      ( ١٩٢٩ء، آمنہ کا لال، ٥٨ )
٥ - جس کا چہرہ خاص کر ہونٹ کسی سبب سے لال ہوں۔"
"اندر سے گلوری آئی اور پاروں کو دکھا کر ہم سرخرو ہوئے۔"      ( ١٩١٥ء، سجاد حسین، حاجی بغلول، ٧ )