سرداری

( سَرْداری )
{ سَر + دا + ری }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'سردار' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ صفت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے۔ تحریراً ١٦٧٨ء سے "کلیات غواصی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت نسبتی ( واحد )
جمع   : سَرْدارِیاں [سَر + دا + رِیاں]
جمع غیر ندائی   : سَرْدارِیوں [سَر + دا + رِیوں (و مجہول)]
١ - حاکمانہ، سردار سے متعلق یا منسوب۔
"فوج اور ادنٰی ملازمتوں کے لیے افرادی قوت کا استحصال کیا لیکن ایسا کرتے ہوئے انہوں نے یہاں کے سرداری اور جاگیر داری نظام کو نہ چھوا۔"      ( ١٩٧٣ء، پاکستان کا المیہ، ٩ )
اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
جمع   : سَرْدارِیاں [سَر + دا + رِیوں (و مجہول)]
١ - امیری، بزرگی، حکومت، افسری۔
 ہم وہ ہیں کہ اللہ نے کوثر ہمیں بخشا سرداری فردوس کا افسر ہمیں بخشا      ( ١٨٧٤ء، انیس، مراثی، ١٨:٢ )
٢ - ایک مرصع کارمداری جو سردار اور امیر کرتے کے اوپر پہنتے تھے۔
"محمدعلی، سرداری بھی بے مثل سیتا تھا۔"      ( ١٩٣٦ء، ہنرمنداں اودھ، ١٦٢ )