پچھاڑی

( پِچھاڑی )
{ پِچھا + ڑی }
( سنسکرت )

تفصیلات


اصلاً سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔ اردو میں سنسکرت سے ماخوذ ہے اصل معنی اور حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم، صفت اور متعلق فعل استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٤٥ء کو "فرسنامۂ رنگین" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - پچھلا، پیچھے کا۔
 پچھاڑی پاؤں کے گھٹنوں کے اندر رگیں ہوتی ہیں تازی کے مقرر      ( ١٧٩٥ء، فرسنامۂ رنگین، ٥٦ )
٢ - پیچھے، جدائی میں، پیچھے پیچھے، عقب میں، بعد میں۔
 اگاڑی مست صف گل غدار چلتی ہے پچھاڑی عاشقوں کی سب قطار چلتی ہے      ( ١٨٣٠ء، نظیر، کلیات، ٦١:٢ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - وہ رسی جو چوپائے کے پچھلے پاؤں میں باندھتے ہیں، (گاڑی کی ضد)۔
"گھوڑا پچھاڑی توڑ کر تھان پر سے بھاگ گیا۔"      ( ١٩٤١ء، اصطلاحات پیشہ وراں، ١٠:٥ )
٢ - پیچھا، پیچھے کا حصہ۔
"جو زمین پر بیٹھا ہے وہ اولٰی ہے اس سے جو اس کی پچھاڑی پر بیٹھا ہے"۔      ( ١٨٦٧ء، نور الہدایہ، ١٣٦:٣ )