ابر کرم

( اَبْرِ کَرَم )
{ اَب + رے + کَرَم }

تفصیلات


مرکب اضافی ہے۔ 'ابر' کے ساتھ عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب مصدر 'گرم' لگایا گیا ہے۔ اردو میں سب سے پہلے ١٧٨٤ء کو "سحرالبیان" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
١ - بادل کی طرح فیض رساں، رحمت کا سرچشمہ، (مراداً) سخی، فیاض۔
 ابر کرم بتا کہ لگائی کہاں ہے دیر دل چشم لطف کا تیری امیدوار ہے      ( ١٩٣٤ء، رونق دہلوی، کلام رونق، ٩٤ )
٢ - فیض، بخشش، رحمت۔
 پرورش دیوے چمن کو جو ترا ابر کرم موتیا میں عوض غنچہ ہو پیدا گوہر      ( ١٨٥٤ء، ذوق، دیوان، ٣٢٦ )
٣ - ابر رحمت۔     
 کشت امید کو سیراب کریں تو جانیں روز لکے تیرے اے ابر کرم اٹھتے ہیں     رجوع کریں:  اَبْرِ رَحْمَت ( ١٨٧٠ء، کلیات واسطی، ١٣٢:١ )