طبع آزمائی

( طَبْع آزمائی )
{ طَبْع + آز + ما + ای }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'طبع' کے بعد فارسی مصدر آزمودن سے صیغہ امر 'آزما' کے ساتھ 'ئی' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٦٢٥ء کو "سیف الملوک و بدیع الجمال" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
جمع   : طَبْع آزمائِیاں [طَبْع + آز + ما + ئِیاں]
جمع غیر ندائی   : طَبْع آزمائِیوں [طَبْع + آز + ما + اِیوں (واؤ مجہول)]
١ - ذہن و فکر کی جورت دکھانا، اپنے فن کے جوہر دکھانا، (عموماً) لکھنا (نظم و نثر)۔
"یہاں کے لوگوں نے الگ اس پر طبع آزمائی کی۔"      ( ١٩٧٠ء، اردو سندھی کے لسانی روابط، ٢٣٥ )
  • Trial of genious or of skill