طول کلامی

( طُول کَلامی )
{ طُول + کَلا + می }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'طول' کے بعد عربی اسم 'کلام' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٥٦ء کو "فوائد الصبیان" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - طول کلام، بسیار گوئی، فضول باتیں کرنا، حجت، تُو تُو میں میں، تکرار نوک جھونک۔
"آخر میں پانچواں مشیر قافیہ بدل کر قدرے طول کلامی سے کام لیتا ہے، اور اس کی بات کاٹنے والا کوئی موجود نہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، نگار، کراچی، اگست، ٩٠ )