بازار کی بات

( بازار کی بات )
{ با + زار + کی + بات }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بازار' اور سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بات' کے درمیان کلمہ اضافت 'کی' آنے سے مرکب اضافی 'بازار کی بات' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٥٤ء میں 'مائل' کے ہاں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - جھوٹی اور گڑھی ہوئی بات یا خبر، غیر معتبر۔
 عدو مرتا ہے تم پر میں کبھی اس کو نہ مانوں گا یہ ہیں بازار کی خبریں یہ ہیں بازار کی باتیں      ( ١٩٠٤ء، سفینۂ نوح، ١١١ )