بازار کی گالی

( بازار کی گالی )
{ با + زار + کی + گا + لی }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بازار' اور ہندی زبان سے ماخوذ اسم گالی کے درمیان کلمۂ اضافت 'کی' لگنے سے مرکب اضافی "بازار کی گالی" بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٩٠٥ء میں "یادگار داغ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - نام لیے بغیر کسی کو برا کہنے کا عمل، عام الزام جو کسی شخص سے متعلق نہ ہو۔
 خدا جانے کہا کس کو ستمگر راہ چلتوں نے خفا کیوں ہو کوئی بازار کی گالی بھی گالی ہے      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٠١ )