بازارو

( بازارُو )
{ با + زا + رُو }
( فارسی )

تفصیلات


بازار  بازارُو

فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بازار' کے ساتھ 'و' بطور لاحقۂ صفت لگنے سے 'بازارو' بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٩١٠ء میں "راحت زمانی" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : بازارُوؤں [با + زا + رُو + اوں (و مجہول)]
١ - معمولی چیز جو معیاری اور مستند نہ ہو، عام بکری کی چیز جو خاص اہتمام سے نہ بنائی گئی ہو، (مجازاً) عام لوگوں کے استعمال کا (سامان یا جگہ وغیرہ)۔
"میں تو بازارو چیز نہیں لیتی مجھے تو بنوا ہی دینا۔"      ( ١٩١٠ء، راحت زمانی، ٥٠ )
٢ - وہ چیز جو جلد بک جائے، بازار کی بکری کی چیز۔ (نوراللغات، 535:1)