بازار نشیں

( بازار نَشِیں )
{ با + زار + نَشِیں }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'بازار' کے ساتھ مصدر 'نشستن' سے مشتق صیغۂ امر 'نشیں' بطور لاحقۂ فاعلی لگنے سے 'بازار نشیں' مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم صفت مستعمل ہے۔ ١٨٥٧ء میں "مینابازار اردو" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
١ - کوٹھے وغیرہ پر بیٹھ کر پیشہ کمانے والی عورت۔
"پھول باغ میں جو ان دنوں قیام گاہ حضور معلیٰ ہے مینا بازار لگایا اور تمام شہر کے حسینان بازار نشیں کو دوکاندار بنایا۔"      ( ١٨٥٧ء، مینا بازار اردو، ١٧ )