خان

( خان )
{ خان }
( فارسی، ترکی )

تفصیلات


فارسی زبان میں بطور ایک اسم نکرہ کے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن ترکی میں بادشاہوں کا لقب ہے اور دونوں معنی کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں لہٰذا یہ فیصلہ مشکل ہے کہ کس زبان سے اردو میں داخل ہوا۔ سب سے پہلے ١٧٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : خانوں [خا + نوں (و مجہول)]
١ - مالک، آقا۔
"بیگم نے کہا خان سے پوچھ لو اگر وہ چٹھی دیتا ہے تو چلا جا"۔      ( ١٩٨٣ء، مشرق، کراچی، نومبر، ١٣ )
٢ - شاہانِ ترکستان کا لقب۔
 خاقان میں ہے نہ خان میں ہے جے گرب جو آج گیان میں ہے      ( ١٧٠٠ء، من لگن، ٥٠ )
٣ - سردار، رئیس، امیر، بادشاہ، پیشوا۔
"دس امیر ایک ملک اور دس ملک ایک خان کی سرداری قبول کرتے تھے"۔      ( ١٩٦٠ء، ہندوستان کے عہد وسطٰی کا فوجی نظام، ١١ )
٤ - پٹھانوں کے نام کا آخری جزو۔
 طفیل صاحبِ عالم محمد ایزد بخش نہ کہہ سکے مجھے ہرگز فرشتہ خاں تم کون      ( ١٨٥١ء، حافظ عبدالرحمن خاں احسان (مضامین فرحت)، ١٦٦ )
٥ - ڈوم، خانساماں کا خطاب، موسیقار، حکیم۔
٦ - ایک لقب جو حکومت یا بادشاہوں کی طرف سے دیا جاتا تھا۔
"علی یار کو خان کا لقب دے کر استر آباد کا گورنر (والی) بنا دیا گیا"۔      ( ١٩٦٧ء، اردو دائرہ معارف اسلامیہ، ٧٣٨:٣ )
  • 'Master
  • owner';  lord prince
  • a title of Muhammadan nobles (especially those of Mogal or Pathan descent);  a common adjunct of Afgan or Pathan name s;  the title of khan
  • or khan-sahib
  • is also applied to native physicians
  • musicians);  the headman or chief of several villages.