دستانہ

( دَسْتانَہ )
{ دَس + تا + نَہ }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں لفظ 'دست' کے ساتھ 'انہ' لاحقہ صفت لگایا گیا ہے۔ لیکن اردو میں بطور اسم نکرہ مستعمل ہے۔ ١٦٦٥ء کو "علی نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
واحد غیر ندائی   : دَسْتانے [دَس + تا + نے]
جمع   : دَسْتانے [دَس + تا + نے]
جمع غیر ندائی   : دَسْتانوں [دَس + تا + نوں (و مجہول)]
١ - ہاتھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک آہنی ہتھیار جو لڑائی میں ہاتھوں پر پہنا جاتا ہے،قلچاق۔
"شاہ شجاع کے آہنی دستانے بھی ہتھیاروں کے کمرے میں نظر آتے ہیں"۔      ( ١٩٤٦ء، مقالات شیرانی، ١٥ )
٢ - کپڑے یا چمڑے کا بنا ہوا غلاف جو ہاتھ کے پنجے سے کلائی تک چڑھا لیتے ہیں۔
 میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے      ( ١٩٧٣ء، کوہِ ندا، ٧٧ )
٣ - چمڑے کا بناہوا غلاف جو شکاری پرند پالنے والے انہیں ہاتھ پر بٹھانے کے لیےہاتھوں پر پہنتے ہیں۔
"بہری اور شکرے کو ہاتھ میں چمڑے کا دستانہ پہن کر کلائی پر بٹھا لیا جاتا ہے"۔      ( ١٩٦٢ء، ساقی، کراچی جولائی : ٤٢ )
٤ - دست بند، ہاتھوں میں پہننے کا ایک زیور۔
 تو ٹیا سرتے موتیاں کی جالی کا خول جھڑے بت تے دستانے در کے امول      ( ١٦٥٧ء، گلشن عشق ١٩٤ )
٥ - تلوار یا کرچ وغیرہ کا قبضہ۔
 کیا ہوا گر ہاتھ پر تم نے لیا ریشم لپیٹ اس کے نیچے تو وہی فولاد کا دستانہ ہے      ( ١٩٣١ء، بہارستان، ٤٣٣ )
  • A glove
  • a gauntlet;  a falwner's glove;  the handle of a shield.