پہاڑی

( پَہاڑِی )
{ پَہا + ڑِی }
( سنسکرت )

تفصیلات


پَہاڑ  پَہاڑِی

اسم تصغیر ( مؤنث - واحد )
جمع   : پَہاڑِیاں [پَہا + ڑِیاں]
جمع غیر ندائی   : پَہاڑِیوں [پَہا + ڑِیوں (و مجہول)]
١ - پہاڑ کی تصغیر۔
 پہاڑی سے لشکر چلا سوئے کوہ چلے بس تو کریے سیہ روئے کوہ
٢ - بلاول ٹھاٹھ کی آڑو راگنی کا نام جس میں پانچ سر لگتے ہیں۔ مدھم اور نکھاد سر درجت ہیں یعنی نہیں لگتے۔
 بڑے شوق سے رانجھا بانسری پر پانچوں پیروں کو راگ سنانے لگا کبھی اودھو اور کاہن کے بشن پدے، کبھی ماجہ پہاڑی پر آنے لگا
٣ - پہاڑ پر رہنے والوں کی زبان۔
"موجودہ پنجابی اور اس کی تمام علاقائی بولیاں مثلاً مالوئی، دوآبی . پوٹھوہاری، پہاڑی اور ہندکو وغیرہ اسی پشاچی کے کنبے کی حیثیت رکھتی ہیں"۔      ( ١٩٤٢ء، اردو زبان کی قدیم تاریخ، ٧٩ )
٤ - مصوری کا ایک اسلوب جس کا تعلق ہمالیہ کی پہاڑی ریاستوں سے بتایا جاتا ہے۔
"ہندوستان میں مصوری کے دو نئے اسلوب ظہور میں آئے،اول راجستانی دوم پہاڑی"      ( ١٩٧٥ء، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، ٣٥٢ )
٥ - پہاڑی بکری کے لیے اختصاراً استعمال کرتے ہیں۔ ایک قسم کی بکری۔
 کئی بربری ان میں گلزار تھی پہاڑی تو دودوں میں سرشار تھی      ( ١٨٩٧ء، نظم آزاد، ١٤٠ )
صفت نسبتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : پَہاڑِیوں [پَہا + ڑِیوں (و مجہول)]
١ - پہاڑ سے منسوب، پہاڑ کا رہنے والا، کوہستان کا باشندہ۔
"وہاں کے پہاڑیوں سے جو لڑائی ہوئی تو خوب لڑائی ہوئی"۔      ( مختصر کہانیاں، حیدری، ٨٢ )