تارا

( تارا )
{ تا + را }
( سنسکرت )

تفصیلات


سنسکرت زبان سے اردو میں مستعمل ہوا، 'ستارا' بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن 'تارا' کا تلفظ سنسکرت میں بھی یہی ہے لہٰذا اردو نے مکمل طور پر اس لفظ کو اپنا لیا۔ ١٥٨٢ء میں "کلمۃ الحقائق" میں ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - انتہائی فاصلے پر، بلند یا نیچا۔فرہنگ آصفیہ۔
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع   : تارِےْ [تا + رے]
جمع غیر ندائی   : تاروں [تا + روں (و مجہول)]
١ - ستارہ، نجم، کوکب
"چاند، سورج، تارے ایسی چیزیں نہیں کہ انسان کسی زمانے میں ان سے غافل رہا ہو"۔
٢ - آنکھ کی پتلی، مرومک چشم (عموماً آنکھ کا مضاف ہو کر مستعمل ہے)، پیارا۔
 نگہہ مہر سے دیکھو جو ذرا تم مجھ کو آنکھ کا تارا سمجھنے لگیں مردم مجھ کو      ( ١٨٧٢ء، مظہر عشق، ١٣٥ )
٣ - وہ تارے جو دماغی صدمے یا کمزوری کے سبب یا بینائی میں فتور کی وجہ سے آنکھ کے آگے نظر آتے ہیں، (یہ لفظ اکثر بصورت جمع استعمال ہوتاہے)، ترمرا۔
"ابتدائی علامات یہ ہیں آنکھ کی روشنی کم ہوتی ہے اور تارے نظر آنے لگتے ہیں"      ( ١٩٦٢ء، کتاب العین، عطاء اللہ، ٥٤ )
٤ - [ کبوتر بازی - مجازا ]  کبوتر۔
"کبوتر باز وہ تھے کہ دو سو تاروں کی ٹکڑی سدھائی تھی"      ( ١٩٥٤ء، اپنی موج میں، ٣٨ )
٥ - [ مجازا ]  نچھتر جس سے منجم و ماہر نجوم سعد و نحس کا حساب اور زائچہ انسانی مرتب کرتے ہیں، ستارا۔ (مجازاً) قسمت، تقدیر۔
"وہ رو رو کر بولی نہیں بھگوان میرا تارا بہت خراب ہے"      ( ١٩٣٦ء، پریم چند کے افسانے، پریم چند، ٣٠ )