جیب

( جیب )
{ جیب (ی مجہول) }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب سے مصدر ہے اور اردو میں بطور حاصل مصدر استعمال کیا گیا۔ ١٧١٨ء کو "دیوانِ آبرو" میں مستعمل ملتا ہے۔ اور اب اردو میں بطور اسم نکرہ مستعمل ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث )
جمع   : جیبیں [جے + بیں (ی مجہول)]
جمع غیر ندائی   : جیبوں [جے + بوں (و مجہول)]
١ - [ مجازا ]  وہ تھیلی جو ضرورت کی معمولی چیزیں رکھنے کے لیے لباس میں کسی موزوں جگہ مثلاً زیر گریباں یا دامن میں سی لیتے ہیں، کیسہ۔
"نانا جان نے اپنی جیب میں سے گاؤں کی ایک سند نکال کر اور سامان جہیز کے ساتھ اس کو بھی رکھ دیا"۔     "غلطی یہ ہوئی کہ گھڑی کو بائیں جانب کی جیب میں رکھا"      ( ١٨٧٤ء، مجالس النساء، ١، ١٢٨ )( ١٩١٣ء، انتخاب توحید، ٧١١ )
اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
جمع غیر ندائی   : جیبوں [جے + بوں (و مجہول)]
١ - گریبان، پیراہن۔
 چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے      شیرازہ دل کا یوں بھی پریشاں کئے چلو بے چاک کے بھی جیب محبت سیے چلو      ( ١٨٦٩ء، دیوان، غالب، ٢٤١ )( ١٩٣٧ء، غزلستان، ٧٧ )
٢ - [ مجازا ]  سینہ، دل
٣ - [ ریاضیات ]  نصف دائرہ، و تر بمقابلہ نصف قوس۔
"ریاضیات کے مسائل . علم مثلث کے حسابات میں بجائے جیب اور قطر کے محاسبہ کا استعمال کرنا"۔      ( ١٨٩٧ء، تمدن عرب، ٤١٧ )