الطاف و کرم غیروں پہ رہتا ہے تمھارا تم جانتے ذرہ بھی نہیں مان کسی کا
( ١٨٤٥ء، کلیات ظفر، ٥٤:١ )
٢ - خاطر، تواضع، آؤ بھگت۔
کل خط زبان حال سوں آ کر کرے گا عذر عاشق سوں کیا ہوا جو کیا تو نے مان آج
( ١٧٠٧ء، کلیات، ولی، ٧٠ )
٣ - غرور، گھمنڈ، تکبر، نخوت۔
"نفسیات کے بارے میں میرا سارا مان چو گیا تھا"۔
( ١٩٨٤ء، اوکھے لوگ، ١٥٩ )
٤ - ناز، نخرہ۔
روپ کچھ، آن بان میں کچھ ہے اور مزہ اس کے مان میں کچھ ہے
( ١٨١٨ء، دیوان، اظفری، ٣٢ )
٥ - [ کنایۃ ] اختیار، بس۔
"برجموہن بولا یہ میرے مان کی بات نہیں . ممکن ہے میں کچھ مدد کر سکوں"۔
( ١٩٥٤ء، شاید کہ بہار آئی، ١٤٤ )
٦ - ارمان، تمنا۔
ان گیتوں کا جن کی دھن پر ناچ رہے ہیں میرے پران ان لہروں کا جن کی رو میں ڈوب گیا ہے میرا مان
( ١٩٨٣ء، سرو سامان، ١٤٩ )
٧ - چاہت، شوق۔
"مان (قدر، چاہت) . مرزا صاحب کی عدم واقفیت ہے جو مان کو ہماری زبان سے خارج سمجھتے ہیں"۔
( ١٩٥٠ء، چھان بین، ١٩٦ )
٨ - فخر، ناز، تمکنت۔
"میں سینما کی دعوت قبول نہیں کرتا کیونکہ میزبانی میرا لطف دوبالا کرتی ہے، مگر جوش نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی، اپنا خورد سمجھ کر خود ہی خرچ کرتے تھے مجھے اس کا بڑا مان تھا"۔
( ١٩٨١ء، آسماں کیسے کیسے، ١٧٩ )
٩ - بھروسہ، اعتبار۔
بس شفاعت پر ہی تیری مان ہے اے رحیم و محسن عالی مقام