مجیب

( مُجِیب )
{ مُجِیب }
( عربی )

تفصیلات


جوب  مُجِیب

عربی زبان سے اردو میں آیا۔ ثلاثی مزید فیہ کے "باب افعال" سے اسم فاعل ہے۔ اردو میں ١٦٠٩ء کو "قطب مشتری" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - جواب دینے والا۔
"اس نے یہاں کی ڈاک میں گفتگو کی، کوئی اس کا مجیب نہ ہوا"۔    ( ١٩٤٩ء، تمہید نادرات، ٥٤:٢ )
٢ - قبول کرنے والا۔
 جو چاہو تم طلب کرو اخلاص قلب سے مژدہ اے داعیو کہ یہ در ہے مجیب کا    ( ١٩٣٧ء، ترانہ مسرت، ٨١ )
٣ - جواب دینے اور قبول کرنے والا، خدا تعالٰی کا صفاتی نام۔
 تو ستم کُش کا معاون ہے، منادی کا مجیب متکفِل ہے غریبوں کا علیلوں کا طبیب      ( ١٩٢٠ء، فردوس تخیل، ٢٢٨ )
٤ - [ طب ]  اجابت لانے والی دوا۔
"ایسی مجیب دوائیں جن سے پیٹ میں پیچ ہو استعمال نہ کی جائیں"۔      ( ١٩٢٣ء، عصائے پیری، ٩٣ )
٥ - [ موسیقی ]  امیر خسرو کا ایجاد کردہ ایک راگ۔
"مجیب یا مجیر : (الگ ایجاد کردہ امیر خسرو) غارا اور عجمی راگوں سے مرکب ہے"۔      ( ١٩٦٠ء، حیات امیر خسرو، ١٦٩ )
٦ - [ اصلاح مناظرہ ]  مدعی (کیونکہ وہ جواب دیتا ہے)
"مدعی کو اس حیثیت سے کہ وہ سائل کو جواب دیتا ہے مجیب کہتے ہیں"۔      ( ١٩٢٥ء، حکمۃ الاشراق، ٤٥٥ )
  • Granting an answer
  • responding (to)
  • listening (to)