زرکش

( زَرکش )
{ زَر + کَش }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'زر' کے ساتھ فارسی مصدر 'کشیدن' سے مشتق صیغۂ 'امرکش' بطور لاحقۂ فاعلی لگا کر مرکب 'زرکش' بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٦١١ء کو "کلیات قلی قطب شاہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( واحد )
جمع غیر ندائی   : زَرکَشوں [زَر + کَشوں (و مجہول)]
١ - سونے چاندی کے تاروں سے کلابتوں بنانے والا، تارکشی کا کام کرنے والا۔
 تو قطب گھن زرکش ہوا کر، طبلے سورج رکھ چرخ پر کرناں سے تاراں کھینچ کر ساریاں میں زرتاراں پھرے      ( ١٦١١ء، قلی قطب شاہ، کلیات، ١٢٣:١ )
٢ - وہ چیز جس پر سونے کے تاروں یا سنہرے تاروں سے کشیدہ کاری کی ہوئی ہو۔
"میں اسے اپنے سامنے کھڑا رہنے دوں گا، اور میں ایک گول زرکش تکیے سے تکیہ لگائے ہوں گا۔"      ( ١٩٤٠ء، الف لیلہ و لیلہ، ٣٤٩:١ )