لگا بندھا

( لَگا بَنْدھا )
{ لَگا + بَن (ن مغنونہ) + دھا }

تفصیلات


دو سنسکرت زبان سے ماخوذ دو اسمائے صفت 'لگا' اور 'بندھا' ملنے سے مرکب بنا۔ اردو زبان میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ ١٨٩٨ء کو "لکچروں کا مجموعہ" میں تحریراً مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
جنسِ مخالف   : لَگی بَنْدھی [لَگی + بَن (ن مغنونہ) + دھی]
واحد غیر ندائی   : لَگے بَنْدھے [لَگے + بَن (ن مغنونہ) + دھے]
جمع   : لَگے بَنْدھے [لَگے + بَن (ن مغنونہ) + دھے]
١ - مقرر کیا ہوا، ٹھہرایا ہوا، معین۔
"کوئی ایسا لگا بندھا ضابطہ نہیں کہ ہم ضلعی مجالس کو ہدایت کر سکیں۔"      ( ١٩٨٨ء، اردو نامہ، لاہور مئی، ٤ )
٢ - قدیم ملازم، محکوم، مطیع، فرماں بردار۔ (فرہنگ آصفیہ، علمی اردو لغت)۔
٣ - قدیم آشنا، دوست، یار۔
"انہوں نے چپے چپے پر اپنے رشتے داروں، بہی خواہوں اور لگے بندھوں کو لگا دیا۔"      ( ١٩٣٣ء، طنزیات و مقالات، ٥٧٣ )
٤ - متعلق، وابستہ۔
 مرید سلسلۂ موہے بالکا ہے دل کمند زلف دو تا سے لگا بندھا ہے دل      ( نکہت (فرہنگ آصفیہ) )
٥ - قیدی، گرفتار، پابند۔ (نوراللغات، علمی اردو لغت)۔