درد مندی

( دَرْد مَنْدی )
{ دَرْد + مَن + دی }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ مرکب 'درد مند' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقۂ کیفیت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم اور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٤٢١ء سے "بندہ نواز، معراج العاشقین" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم مجرد ( مؤنث )
جمع   : دَرْد مَنْدِیاں [دَرْد + مَن + دِیاں]
جمع غیر ندائی   : دَرْد مَنْدِیوں [دَرْد + مَن + دِیوں (و مجہول)]
١ - ہمدردی، غم خواری۔     
"جب گل نے یہ درد مندی کی باتیں دائی سے سنیں کہنے لگی اے ماما میں اپنے دل کا درد کسی سے کہہ نہیں سکتی۔"     رجوع کریں:   ( ١٨٠٠ء، قصۂ گل و ہرمز (قلمی نسخہ)، ٢٦ )
٢ - غم زدہ ہونا، مصیبت زدگی، دکھ، تکلیف۔
 کبھی جزا ہی نہیں رنج و درد مندی کی کبھی سزا ہی نہیں کبر و خود پسندی کی      ( ١٩٣١ء، نقوشِ مانی، ١٥٩ )
٣ - رحم دلی، ترس۔
 نظر میں نہ لاؤ تم اس کا قصور کہ ہے دردمندی سے یہ بات دور      ( ١٧٣٩ء، کلیات سراج، ٩٨ )
صفت ذاتی
١ - بیمار؛ دکھی، دردمند (قدیم)۔
"جیکوئی درد مندی ہو کر آئے تو دوائی میں کروں۔"      ( ١٤٢١ء، بندہ نواز، معراج العاشقین، ٣٧ )