دست برد

( دَسْت بُرْد )
{ دَسْت + بُرْد }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دست' کے ساتھ مصدر 'بردن' سے صیغہ امر 'برد' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٦٤٩ء سے "خاورنامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر، مؤنث - واحد )
١ - مال، دولت، سرمایہ۔
 آج مانا یگانہ ہیں ہم لوگ دست برد زمانہ ہیں ہم لوگ      ( ١٩٠١ء، راقم، کلیات، ٩١ )
٢ - دلیری، سبقت۔
 انے گرز کے دست میں دست برد دکھایا انوکوں وہاں دستبرد      ( ١٦٤٩ء، خاورنامہ، ٣٨٤ )
٣ - کسی غیر کا قبضہ، عمل دخل، تسلط، اثر۔
"خطہ کشمیر اپنی جغرافیائی صورت حال کی وجہ سے کئی مرتبہ حملہ آوروں کی دست برد سے محفوظ رہا۔"      ( ١٩٧٧ء، اقبال کی صحبت میں، ٣٧٩ )
٤ - خوردبرد، چوری، غبن، خیانت۔
"جس قدر گہنا مستان شاہ کے دست برد سے بچا تھا مع چھلے انگوٹھی کے اتار کے ڈال دیا۔"      ( ١٩٠٠ء، خورشید بہو، ١٤٢ )
٥ - تباہی، لوٹ مار، غارت گری، چیرہ دستی۔
"زمانے کی دست برد سے آتش جہلا سے اور عیاران ماضی کی تباہ کاریوں سے دورِ اسلام کی جو نورانیاں محفوظ رہ گئی ہیں وہ . کہیں جمع ہیں اور کہیں مدفون۔"      ( ١٩٨٣ء، کوریا کہانی، ١١ )