دست انداز

( دَسْت اَنْداز )
{ دَسْت + اَن + داز }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'دست' کے ساتھ مصدر 'انداختن' سے صیغہ امر 'انداز' بطور لاحقۂ فاعلی لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت استعمال ہوتا ہے اور تحریراً ١٨٣٢ء سے "دیوان رند" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی ( مذکر - واحد )
١ - دخل دینے والا، مداخلت کرنے والا، رکاوٹ یا مزاحمت پیدا کرنے والا۔
"جو آئندہ کو پوپ روم کارروائی کرے گا اس میں جرمن دست انداز نہ ہو گا۔"      ( ١٨٧٣ء، اخبار مفید عام، ١٥ جولائی، ١٥ )
٢ - کسی کام میں ہاتھ ڈالنے والا۔
"تحریر پران جلد ہوش ربا کی دست انداز ہوا۔"      ( ١٨٩٢ء، طلسم ہوش ربا، ٤:٦ )
٣ - ہاتھ بڑھانے والا، دست درازی کرنے والا، ظلم اور زیادتی کرنے والا۔
 اے جنوں سمجھوں گا کل ہرتار کا تجھ سے حساب آج تو میرے گریباں پر جو دست انداز ہے      ( ١٨٥٣ء، دیوان اسیر، ٣٦٨:١ )