آمد و رفت

( آمَد و رَفْت )
{ آ + مَدو (و مجہول) + رَفْت }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی مصدر 'آمدن' سے مشتق صیغہ امر 'آمد' کے ساتھ اردو 'و' بطور حرف عطف لگانے کے بعد فارسی مصدر 'رفتن' سے مشتق صیغہ امر 'رفت' بطور لاحقہ فاعلی ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٣٢ء میں "کربل کتھا" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث )
١ - آنا جانا (کسی بھی چیز کا چاہے وہ انسان ہو یا غیر انسان)۔
"آج کل اس محلہ کی ہوا خراب ہو رہی ہے، اس لیے یہ احتیاط کی ہے کہ آمد و رفت میں کمی ہو۔"      ( گرداب حیات، راشدالخیری، ١٩١٠ء، ٦٠ )
٢ - ربط ضبط، رسم و راہ۔
"ہمارے ان کے آمد و رفت نہیں ہے۔"      ( نوراللغات، ١٩٢٤ء، ١٣٩:١ )
٣ - گزرگاہ۔
 زاہد کو رسے خم، پیر مغاں دور رہے آمد و رفت سے اندھے کی کنواں دور رہے      ( دیوان صبا، غنچہ آرزو، ١٨٥٢ء، ١٦٧ )
  • coming and going;  ingress and egress
  • communication
  • intercourse;  passage
  • way
  • thoroughfare