آنکھ کا پردہ

( آنْکھ کا پَرْدَہ )
{ آنْکھ (ن مغنونہ) + کا + پَر + دَہ }

تفصیلات


سنسکرت زبان سے ماخوذ اسم 'آنکھ' کے ساتھ اردو حرف اضافت 'کا' لگانے کے بعد فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'پردہ' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٨٧٠ء میں "دیوان مہر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( واحد )
واحد غیر ندائی   : آنْکھ کے پَرْدے [آنْکھ (ن مغنونہ) + کے + پَر + دے]
جمع   : آنْکھوں کے پَرْدے [آں + کھوں (و مجہول) + کے پَر + دے]
جمع غیر ندائی   : آنْکھوں کے پَرْدوں [آں + کھوں (و مجہول) + کے + پَر + دوں (و مجہول)]
١ - پتلی کے اندر کی سات تہ بند جھلیوں میں سے ہر ایک۔
 مردم کی بصارت بھی عدم کو ہوئی راہی وہ رات تھی یا آنکھ کے پردوں کی سیاہی      ( مرثیہ سپہر (رستم علی خاں) ١٩٣٦ء، ٢ )
٢ - دیکھنے سے مانع، حجاب، اوٹ، آڑ۔
 بس ایک عذر مشیت تھا بے نقابی میں فقط اک آنکھ کا پردہ تھا بے حجابی میں      ( شمیم، ریاض شمیم، ١٩١٢ء، ٢٤:٦ )
٣ - حیا و شرم۔
 اس گھرانے سے جو مختص تھا وہ شیوہ نہ گیا کھل گئے بال مگر آنکھ کا پردہ نہ گیا      ( مراثی نسیم، ١٩٥٣ء، ٧١:٣ )
  • پَرْدَہ چَشْم