آتش خاموش

( آتَشِ خاموش )
{ آ + تَشے + خا + موش (و مجہول) }
( فارسی )

تفصیلات


فارسی زبان میں اسم 'آتش' کے ساتھ کسرہ صفت لگانے کے بعد فارسی زبان سے ہی صفت 'خاموش' ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں فارسی سے ماخوذ ہے اور بطور اسم مستعمل ہے تحریراً ١٨٤٥ء میں "کلیات ظفر" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث )
١ - بے شعلے کی آگ۔
 لب لعلیں سے تیرے کام کیا تھا تشنہ کاموں کو مگر دیکھا کہیں اس آتش خاموش میں دریا      ( کلیات ظفر، ١٨٤٥ء، ١٥ )
٢ - چپکے چپکے یا آہستہ آہستہ جلنے والی آگ، سلگنے والی آگ۔
 دل مرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا آتش خاموش کے مانند گویا جل گیا      ( دیوان غالب، ١٨٦٩ء، ١٥١ )
٣ - بجھی ہوئی آگ۔
 امیروں کو نہ رہی لعل شب چراغ کی قدر ہوئے تھے آتش خاموش کی طرح بیکار      ( کلیات منیر، ١٨٧٣ء، ١٨:٣ )
  • آتَشِ بے شُعْلَہ
  • آتَشِ سَرْد