آشفتہ بیاں

( آشُفْتَہ بَیاں )
{ آ + شُف + تَہ + بَیاں }

تفصیلات


فارسی مصدر 'آشفتن' سے مشتق صیغہ حالیہ تمام 'آشفتہ' کے ساتھ عربی زبان سے ماخوذ اسم 'بیاں' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور صفت مستعمل ہے۔ ١٨٦٩ء میں "دیوان غالب" میں مستعمل ملتا ہے۔

صفت ذاتی
١ - کج مج زبان، جو اپنی بات تسلسل اور ترتیب سے بیان نہ کر سکے، بے ربط گفتگو کرنے والا۔
 اس آشفتہ بیانی کو کوئی سمجھے تو کیا سمجھے سراتم نے بھلایا شاد آپ اپنے افسانے کا      ( شاد، میخانہ الہام، ١٩٢٧ء، ٤٨ )