قطع کلامی

( قَطْع کَلامی )
{ قَطْع + کَلا + می }
( عربی )

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قطع' کے ساتھ عربی زبان سے ہی اسم 'کلام' کے ساتھ 'ی' بطور لاحقہ کیفیت ملانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے ١٩٧٦ء میں جون کا اخبار "نوائے وقت" بمقام لاہور میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
١ - بات کاٹنا، گفتگو میں خلل پیدا کرنا۔
"ڈیڈی مزید کچھ کہنا چاہ رہے تھے کہ ممی قطع کلامی کرتے ہوئے کہتی ہیں۔"      ( ١٩٨٧ء، فنون لاہور، نومبر، دسمبر، ٤٠٧ )
٢ - بول چال بند ہونے کی صورت، باہمی روابط کی موقوفی۔
"جس نے نہ صرف حکومت اور اپوزیشن میں ایک طرح کی قطع کلامی کی نوبت پہنچا رکھی ہے بلکہ عام سیاسی فضا میں بھی تلخیوں کا ایسا زہر گھول دیا ہے کہ بے اعتمادی اور بدگمانی کا چلن عام ہو گیا ہے۔"      ( ١٩٧٦ء، نوائے وقت، لاہور ١٧ جون، ٣ )