بازو کی مچھلی

( بازُو کی مَچْھلی )
{ با + زُو + کی + مَچھ + لی }

تفصیلات


فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'بازو' اور ہندی سے ماخوذ اسم مچھلی کے درمیان کلمۂ اضافت 'کی' لگنے سے مرکب اضافی 'بازو کی مچھلی' بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے اور ١٨٣٨ء میں "دیوان ناسخ" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
١ - وہ ابھرا ہوا گوشت جو شانے اور کہنی کے درمیان میں ہوتا ہے۔
 راہیں جو ایک بار ترائی کی کھل گئیں بازو کی مچھلیاں بھی سردست تل گئیں      ( ١٩١٧ء، مرثیۂ بزم اکبر آبادی، ١١ )