قبلہ گاہ

( قِبْلَہ گاہ )
{ قِب + لَہ + گاہ }

تفصیلات


عربی زبان سے ماخوذ اسم 'قبلہ' کے ساتھ فارسی زبان سے ماخوذ اسم 'گاہ' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ١٧٠٧ء میں "کلیات ولی" میں مستعمل ملتا ہے۔

اسم نکرہ ( مذکر )
١ - [ کلمہ تعظیمی ]  بزرگ یا عزیز شخص کے لیے کلمہ تعظیمی کے طور پر بولا جاتا ہے۔
 ہو زمیں پر جلوہ گاہ ناز محبوب الٰہ ہاں وہ ماوائے حرم وہ محرموں کا قبلہ گاہ      ( ١٩٢٢ء، فردوس، تخیل، ٨٥ )
٢ - پدر بزرگوار۔
"اور قبلہ گاہ صرف والد کے القاب احترام میں ہے۔"      ( ١٩٨٦ء، قومی زبان، کراچی، فروری، ١٤ )
٣ - [ طنزا ]  بزرگ، حمایتی۔
 دل دیں گے ہم تو حضرت ناصح ہزار بار دینا نہیں ہے آپ کے کچھ قبلہ گاہ کا      ( ١٩٠٥ء، یادگار داغ، ١٢ )
٤ - [ کنایۃ ]  قدیم، بہت بڑا قد اور شخص یا شے۔
"کچھ پیڑ آموں کے ہیں جو اپنی قدامت و قامت کے اعتبار سے اس باغیچے کے قبلہ گاہ ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔"      ( ١٩١٢ء، یاسین، ٩٣ )
  • The place turned to when at prayers;  a father;  one venerated and beloved